جنات اور انسانوں کی تخلیق کا حقیقی مقصد یہی تھا کہ وہ بارگاہ رب العالمین میں آئے، اپنے جبینِ نیاز کو فقط معبود حقیقی مالک کائنات کے آگے جھکائے، اسی کی تکبیر کی صداؤں کو بلند کرے، اسی کی تحلیل کے آوازوں کو اجاگر کرے اور اسی وحدہ لاشریک ذات کی تسبیح کے گیت گائے چنانچہ ارشاد ہوا وَما خَلَقتُ الجِنَّ وَالاِنسَ الا لیعبدون ۞ترجمہ :لیکن درحقیقت ہم نے اپنے مقصد حقیقی کو پس پشت ڈال دیا ہے
تاریخ یہ بتلاتی ہے کہ جب سے انسان اس کرہ ارض پر آباد ہوا ہے، انسان مختلف قسم کی آفات، سیلاب، زلزلوں، رزق کی تنگی،مشکل اور کٹھن حالات کی ضد میں ہے جیسے کہ آج کل بے روزگاری ، بدامنی اور کمر توڑ مہنگائی نے پاکستانی عوام جینا کا حرام کر رکھا ہے پاکستان اس وقت معاشی طور پر تاریخی بھیانک ترین موڑ پر کھڑا ہے لیکن حکمران طبقے کی دولت اور عیاشی میں دن دگنی رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے ججوں، جرنیلوں، بیوروکریٹس اور ممبران پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں بھی تاریخ کے سب سے بڑے اضافے ہو رہے ہیں ۔ بعض ائمہ نے انسانوں کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد غم سے آزادی کو قرار دیا پھر چاہے وہ غم معاشی ہو، معاشرتی ہو، بے اولادی کا ہو، بیماری کا ہو غرض ہر انسان غم کے ساتھ مقابلہ کرنے کی کشمکش میں مگن ہے
غم کا آنا اور چلے جانا مادی وسائل کے ساتھ مشروط نہیں ہے، بہتوں لوگ وسائل کے باوجود غموں کا مقابلہ کرنے سے ساری زندگی قاصر رہتے ہیں اور بہتوں صاحب سروت اور مال و دولت سے مالامال لوگوں کو جب اپنے قریب کیا جائے اور انہیں جھنجھوڑا جائے تو ان کے اندر سے غم ہی غم نکلتے ہیں ، ہر پاکستانی اس بات کا تذکرہ کرتا رہتا ہے کہ مہنگائی نے جینا حرام کر رکھا ہے مہنگائی ناقابل یقین حد تک بڑھ چکی ہے لیکن کوئی بھی اس کے روحانی اسباب اور محرکات کی طرف متوجہ نہیں ہوتا
قرآن و سنت کا مطالعہ اس حقیقت کی نقاب کشائی کرتا ہے کہ دنیاوی زندگی میں آنے والی آفات، مشکلات اور بیماریاں ، ان کے تین بڑے اسباب ہوتے ہیں اور ان تینوں اسباب کا تعلق انسانوں کی مختلف حالتوں کے ساتھ ہے
مشکلات ، بیماریاں ، آفات اور رزق کی تنگی نیک لوگوں کے لیے اللہ تعالٰی کی جانب سے آزمائش ہوتی ہے دنیا کی سب سے زیادہ برگزیدہ ہستیاں انبیاء کرام علیہم السلام کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زندگیاں مشاکل ، مصائب اور آزمائشوں میں ڈوبی ہوئی ہوتی ہے خود حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی زندگی مشاکل و مصائب سے بھری پڑی ہے اسی طرح بتدریج ہر مسلمان پر مشکلات آتیں ہیں چنانچہ ارشاد ربانی ہے "ترجمہ : اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے .البقرة 155 "
مومن ان مشاکل و مصائب کا مقابلہ صبر و استقامت اور اللّٰه کی تقدیر پر راضی ہو کر کرتا ہے ترجمہ:ان سے کہو "ہمیں ہرگز کوئی (برائی یا بھلائی) نہیں پہنچتی مگر وہ جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے اللہ ہی ہمارا مولیٰ ہے، اور اہل ایمان کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے" التوبة51
دوسرے وہ لوگ ہیں کہ جو خیریت سے ہوں تو خوش ہوتے ہیں لیکن مصائب کے آجانے کے بعد شکوے شکایت کا اظہار کرتا ہے ، وہ درحقیقت اللّٰہ کی ایک کنارے پر پوجا کرتے ہے ان لوگوں کے لیے مصائب و مشکلات وارننگ اور تنبیہ کا پیغام لاتی ہیں چنانچہ ارشاد ربانی ہے " وَمِنَ النَّاسِ مَن يّعبُدُ اللّٰهَ عَلٰى حَرفٍ ۚ (الخ)۞ترجمہ : اور لوگوں میں بعض ایسا بھی ہے جو کنارے پر (کھڑا ہو کر) خدا کی عبادت کرتا ہے۔ اگر اس کو کوئی (دنیاوی) فائدہ پہنچے تو اس کے سبب مطمئن ہوجائے اور اگر کوئی آفت پڑے تو منہ کے بل لوٹ جائے (یعنی پھر کافر ہوجائے) اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی۔ یہی تو نقصان صریح ہے الحج۔11"
تکالیف جس طرح نیکوکاروں کو آزمانے کے لیے آتی ہیں اور صبر و استقامت کا تقاضا کرنے کے لیے آتیں ہیں اسی طرح گناہ گاروں کے لیے وارننگ بن کر آتی ہیں
ہم گناہ گار تو ہیں باغی نہیں یہ تکالیف ہماری زندگیوں میں ہمارے گناہوں کی پاداش میں آتیں ہیں لہذا ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ توبہ و استغفار کے ذریعے اپنی تقدیر بدلنی ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے" قُل يٰعِبَادِىَ الَّذِينَ اَسرَفُوا عَلی اَنفُسِهِم ( الخ )۞ترجمہ (اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں کو) کہہ دو کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہونا۔ خدا تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ (اور) وہ تو بخشنے والا مہربان ہے الزمر53"
جب گناہ معاف ہو جائیں گے تو اس کا نتیجہ بھی اللّٰہ نے بتلا دیا ہے کہ فَقُلتُ استَغفِرُوا رَبّكُم اِنَّهٗ كَانَ غَفَّارًا ( الخ)(نوح)
ترجمہ:اللّٰہ ہمیں بخشے گا ، بارشوں، مال و دولت ، اولاد اور جنت جیسے عظیم انعامات سے بھی نوازے گا
تیسرا یہ کہ آفات و بلیات ، مشکلات و مصائب مجرموں کے لیے عذاب کا کوڑا بن کر آتیں ہیں پھر ان مجرموں، فسادیوں، باغیوں اور منکرین کو اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں ہوتا جیسے کہ اللہ کا فرمان ہے" ترجمہ:(اس وقت) خدا کے سوا کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوئی اور نہ وہ بدلہ لے سکا ۔الكهف43"
لہذا قرآن مجید اور سنت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے معلوم ہوا کہ مشکلات و مصائب مومنین کے لیے آزمائش اور ان کے صبر و استقامت کے امتحان کے طور پر آتیں ہیں اور گناہ گاروں کے لیے مشکلات و مصائب اور آفات و بلیات وارننگ اور تنبیہ کے طور پر آتیں ہیں جبکہ باغیوں اور مجرموں کے لیے عذاب کا کوڑا بن کر آتیں ہیں
بحیثیت قوم کمر توڑ مہنگائی ،کرپشن, بد امنی اور بے یقینی کی کیفیت کا سب سے بڑا سبب قرآن مجید کو پس پشت ڈالنا ہے
انفرادی طور پر اپنی معیشت کے پیے کو بہتر بنانے کے لیے رجوع الی اللہ کرتے ہوئے توبہ اور استغفار کی ضرورت ہے اور اجتماعی سطح پر اسلامی نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے ہر دور اور ہر نظام پاکستانی عوام پر آگ کا گولہ بن برسا کسی بھی حکومت میں عوام کو امن ، سکون اور چین نہیں ملا۔ تو آخر امن اور رزق کی کشادگی کس صورت میں ہم پر آئے گی ، معیشت کا استحکام ، امن اور خوشحالی کہاں ہے، اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ کا اٹل فیصلہ یہی ہے کہ معاش کا سکون، امن و خوشحالی فقط اللہ کی کتاب قرآن مجید کے نفاذ میں ہے" ترجمہ: اور اگر وہ تورات اور انجیل کو اور جو (اور کتابیں) ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر نازل ہوئیں ان کو قائم رکھتے (تو ان پر رزق مینہ کی طرح برستا کہ) اپنے اوپر سے پاؤں کے نیچے سے کھاتے ان میں کچھ لوگ میانہ رو ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جن کے اعمال برے ہیں "المائدہ-66
لیکن اس مقام پر پاکستانی ہونے کے ناطے علامہ محمد اقبال کا وہی شعر ہم پر صادق آتا ہے کہ
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
لہذا بحیثیت قوم ہمیں اس بات پر غور وفکر کر کے اپنے اعمال کی اصلاح کرنی چاہیے اور اتحاد امت اور اقامت دین کے ذریعے معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اسلامی نظریات کی حامل تحریکوں اور تنظیموں کا دست و بازو بن کر پاکستان کو اسلامی اور فلاحی ریاست بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے
طیب نعیم
مدیر مجلہ المصباح