جمعیت طلبہ عربیہ کے قیام کا مقصد "اتحاد امت"

خلافت راشدہ کے بعد جب ملت اسلامیہ میں مذہبی لحاظ سے ضعف کا آغاز ہوا اور خلافت کی جگہ ملوکیت نے لے لی۔ تو ان نامساعد حالات میں اسلامی اقدار کو ان کی اصلی روح کے ساتھ ہر دور میں زندہ و قائم رکھنے کا سہرا دینی مدارس کے سر بندھتا ہے کہ جنہوں نے امت کی بر وقت صحیح رہنمائی کی اور اپنے وجود سے ایسے محدث، مفسر اور جرنیل پیدا کئے کہ جن کے سر فروشانہ کارنامے اور جرات کی انمٹ داستانیں قیامت تک مشعل راہ ہیں ۔ جب تک مسلمانوں میں وحدت و مرکزیت قائم رہی اور دنیا پر ان کی حکمرانی رہی تو مدارس عربیہ کی حقیقی شان و شوکت بھی قائم رہی۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد جب امت مسلمہ کا شیرازہ بکھر گیا اور وہ مختلف صورتوں میں یکے بعد دیگرے استعمار کی غلامی کے چنگل میں پھنس گئیں تو اس نازک موقع پر ایک منظم سازش کے تحت کچھ خفی عوامل نے دینی مدارس کی معنویت کو ختم کرنے اور علما کو رسوا کرنے کے لئے بنیادی رول ادا کیا جن کی سرپرستی خود استعماری ذہن کر رہا تھا

Jamiat-Talba-Arabia-ky-qayam-ka-maqsad-ittahad-e-ummat-by-tayyab-naeem-jamiat-talba-arabia-pakistan


تقسیم ہند کے بعد حکومت پر اکثر و بیشتر یہی استعماری طبقہ قابض ہو گیا 
 مذہبی فرقہ واریت کو عملا ہوا دے کر اس کی خفیہ سر پرستی کی۔ دینی مدارس اور علماء کو نہایت گھناؤنی صورت میں ایک طویل طلسماتی منظر کے ذریعہ اپنی حکومتی طاقت کے بل بوتے پر قوم کے سامنے پیش کیا ۔ ذرائع ابلاغ سے کردار کشی کی مہم شروع کی۔ اس صورتحال کا مؤثر توڑ علماء کا ایک ملک گیر اور مضبوط اتحاد تھا ۔ جو ان کے لئے ایٹمی قوت سے بھی کہیں بڑھ کر تھا لیکن اس مقام پر آکر علماء کی اکثریت راہ راست سے بھٹک گئی 
اس وقت دنیا تیزی سے ترقی کر رہی ہے  طاغوتی قوتوں کو اس بات کا احساس بہت پہلے ہوچکا تھا کہ دنیا کا ہر مذہب ان کے سامنے سرنگوں ہو جائے گا ، سوائے اسلام کے کیونکہ اسلام جو فلسفہ حیات پیش کرتا ہے وہ نہ محض چند رسوم و اعمال کا مجموعہ ہے اور نہ ہی محض چند اخلاقی و سماجی تعلیمات کی ترغیب دینے والی کوئی تہذیب ہے ۔ اسلام جو فلسفہ پیش کرتا ہے اسے ہم قرآنی اصطلاح میں ” الدین ” کہہ سکتے ہیں ۔ دین کا تعلق انسان کے افکار و نظریات سے بھی ہے اور اعمال و عادات سے بھی ۔ زندگی کا ہر ہر گوشہ اور ہر گوشے کا ہر ہر پہلو دائرہ دین میں داخل ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام کو کسی نئے نظریے اور کسی نئی حکمت عملی کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں اور اس پر قرآن مجید کی یہ آیت کافی ہے:ترجمہ
آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے )
لیکن بدقسمتی سے امت مسلمہ نے کتاب و سنت کو پس پشت ڈال دیا اور ہماری ناکامی کی سب سے بڑی وجہ ہی یہی ہے کہ ہم نے قرآن مجید اور سنت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو عملی جامہ نہیں پہنایا 
امت مسلمہ کا سب سے برا المیہ تفرقہ پرستی ہے اور اسی تفرقہ پرستی نے اسے ایک مرکزِ ملّت اور نکتۂ وحدت و ارتکاز سے محروم رکھا ہے ۔ اللہ ربّ العزت نے امت مسلمہ کو حکم دیا تھا:
 (آل عمران "(اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو"

اور اس حکم سے اعراض کا نتیجہ بھی بتا دیا تھا
ترجمہ"اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائو جنہوں نے تفرقہ کیا اور باوجود یہ کہ ان کے پاس روشن دلیلیں ( بینات ) آگئیں انہوں نے اختلاف کیا ۔ پس یہی لوگ ہیں جن کے لیے بڑا عذاب ہے.”

لیکن کتنی بدقسمت ہے یہ قوم جس کے پاس عقیدے تو بہت ہیں مگر دل یقین سے خالی ہے ۔ جس نے کتاب و سنت کی واضح تصریحات کے بالمقابل اپنے پیشوایان کے اقوال و آراء کو اصل دین سمجھ لیا ہے ۔ رحمتِ الٰہی نے کافوری شمعیں عطا کی تھیں ، مگر یہ بجھتے دیے کی دم توڑتی روشنی میں ہدایت کے متلاشی ہیں ۔ جب تک یہ امت دین کی اصل کی طرف متوجہ نہیں ہوگی تب تک نہ اسے ہدایت و رہبری مل سکتی ہے اور نہ ہی دنیا و آخرت کی کامیابی ۔ صد حیف و حسرت کہ اس تفرقہ پرستی کی آگ کو بھڑکانے والے اس امت کے علماء ہیں جن کا فریضہ امت کو انتشار و افتراق کی جگہ اتحاد و اتفاق کے رشتہ وحدت سے منسلک کرنے کا تھا ۔ ان کا کام اتباعِ سبل متفرقہ کی جگہ صراطِ مستقیم کی ہدایتِ عام تھا ۔ مگر انسگانِ دنیا نے اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کی خاطر امت کو تفرقہ پرستی کے قعرِ مذلّت میں جا گرایا
لیکن انہی اندھیروں میں امید کی کرن فقط جمعیت طلبہ عربیہ اور اتحاد امت کے لیے کوشاں تحریکیں معلوم ہوتی ہیں 
جمعیت طلبہ عربیہ مدارس عربیہ کی ملک گیر تنظیم ہے۔ جو طلبہ کی ذہنی ، فکری ، اخلاقی اور جسمانی تربیت کے ساتھ ساتھ ان کے اندر اخوت و محبت، اتحاد و اتفاق، ایثار وقربانی اور سر بلندی اسلام کے لیے جذبہ جہاد جیسے عظیم انقلابی اوصاف پیدا کرتی ہے۔ اور وقتاً فوقتاً ان کی رہنمائی و تربیت کے لیے مختلف لٹریچر و کتب کی اشاعت کا اہتمام کرتی رہتی ہے۔ مجلہ ماہنامہ مشکوٰۃ المصباح بھی اسی کی ایک کڑی ہے۔ کارکنان جمعیت عملی میدان میں درست سمت کے راہی  ہونے چاہیے اور وضع کردہ مشعل راہ اصولوں کے مطابق جد و جہد کرتے ہوئے مسلکی تعصب وفرقہ واریت کیخلاف اتحاد و اتفاق اور اسلامی انقلاب کی راہ ہموار کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے 
اتحاد امت کے فروغ اور فرقہ پرستی کے خاتمہ کے لئے درج ذیل اصول و ضوابط پر مشتمل ایک ہمہ گیر لائحہ عمل تیار کیا جانا چاہیے۔
1۔ عقائد و اعمال کے مشترک پہلو تلاش کرکے باہمی اخوت و اتحاد کو فروغ دیا جائے اور تمام تر اختلافات کا خاتمہ کیا جائے
2۔ تمام مذہبی حلقہ ہائے فکر کے مابین باہمی میل جول ، مکالمہ اور تبادلہ خیال کے مواقع پیدا کرنے چاہیے اور ہم آہنگی کے بیانیہ کو زیر بحث لائیں۔
3. علمائے کرام کے متفقہ ہم آہنگی کے بیانیہ اور تحقیقی مواد کو نشر کیا جائے 
4.  ہر مسلک کے اندر مصلحین اور داعیان اتحاد سے روابط قائم کیے جائیں اور انہیں جمعیت طلبہ عربیہ کی سرگرمیوں میں شامل کیا جائے 
5. مسلکی اختلاف کے حوالے سے سول سوسائٹی کی تعلیم و تربیت اور ذہن سازی پر خصوصی توجہ دی جائے 
6.  مستقبل کے متوقع دینی قائدین کو فکر وشعور کے ساتھ ساتھ ایسی عملی مہارتیں بھی سکھائی جائیں جن سے ان کا کردار مثبت رخ پر ڈھل سکے اور وہ اپنی مساعی کو اتحاد امت اور اقامت دین پر مرکوز کر سکیں
7.  مختلف تعلیمی اداروں میں اسلامک سٹڈیز کے ٹیچرز کو اتحاد امت کے بیانیے پر خصوصی تربیت دی جائے۔

8. دینی تعلیم کے لئے مشترکہ اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ آپس میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو۔
9. علماء کے لئے جدید عصری تعلیم کا اہتمام کیا جائے تاکہ مناظرانہ اور مجادلانہ طرزِ عمل کا خاتمہ ہو۔
10. فرقہ پرستانہ سرگرمیوں کے خاتمے کے لئے سرکاری سطح پر قانون سازی کی جائے 
.تاریخ کے باب میں اختلاف کو ایک علمی سرگرمی کے طور پر محدود کر دیا جائے۔یہ اہلِ علم کے ہاں تو زیرِ بحث رہے،گلی اور بازار کا موضوع نہ بنے
ہمیں خالق کائنات کے حضور انتہائی عجز وانکساری کے ساتھ سجدہ شکر بجا لانا چاہیے کہ رب کونین نے ہمیں اس پرفتن دور میں علوم اسلامیہ کے حصول اور اس کی ترویج و اشاعت کے لئے منتخب فرمایا ، اور خصوصاً اس بات پر بھی اللّٰه تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہیں، کہ مالک الملک نے ہمیں آج کے اس پر فتن مذہبی ، علاقائی ، وطنی اور طبقاتی منافرت پھیلانے کے دور میں اتحاد امت اور اسلامی انقلاب کے لئے جد وجہد کرنے والے قافلے کا ادنی سپاہی بنایا ہے
 جمعیت طلبہ عربیہ سے منسلک ہر طالب علم کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ حصول علم کے بعد منبر و محراب سے منسلک رہے  مساجد اور مدارس میں فرقہ پرستوں کو موقع دینے کے بجائے خود آگے بڑھ کر اتحاد امت ، اقامت دین کے ساتھ ساتھ علوم عربیہ کی ترویج کے لئے اپنی قوتوں کو کام میں لائیں
ہم خداوند کریم کے انتہائی شکر گزار ہیں کہ اُس نے ہمیں اپنے دین کی خدمت اور جمعیت طلبہ عربیہ کی اقامت دین اور اتحاد امت کی خالص اسلامی دعوت جو کہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت کا مرکز و محور تھی
کی خدمت کا موقع دیا اور دعا ہے کہ الله تعالیٰ اس عظیم خدمت کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت بخشے ۔ ( آمین )


Please do not enter any spam links in the comment box.

جدید تر اس سے پرانی