7 اکتوبر 2023ء کو حماس کی القسام بریگیڈ کی قیادت میں آپریشن طوفان الاقصیٰ کے نام سے فلسطینی مجاہدین نے غزہ کی پٹی سے اسرائیل کے خلاف بڑے پیمانے پر حملے کا آغاز کیا، مجاہدین نے صبح سویرے اسرائیل کے خلاف راکٹوں ، گاڑیوں اور پیراگلائیڈرز کے ذریعے رکاوٹیں توڑتے ہوئے قریبی اسرائیلی بستیوں پر تابڑ توڑ حملہ کیے ۔ اس ناقابل یقین حملے کو بعض مبصرین نے تیسری فلسطینی انتفاضہ کا آغاز قرار دیا ہے۔
اس جنگ میں اب تک اسرائیلی ہلاکتیں 1200 سے زائد ہوچکی ہیں، 3 ہزار کے قریب زخمی، 11 امریکی اور تھائی لینڈ کے 18 شہری بھی مارے گئے ہیں جبکہ 100 سے زائد حماس کی قید میں ہیں
دوسری جانب اسرائیلی فوج بزدلانہ کارروائی کرتے ہوئے نہتے فلسطینیوں پر مسلسل بمباری کر رہی ہے، غزہ کی پٹی میں صیہونی قابض فوج کا نہتے فلسطینیوں کے خلاف ہولوکاسٹ جاری ہے، غزہ کے الاہلی ہسپتال پر بمباری سے 500 شہید جبکہ 600 سے زائد سے زائد زخمی ہوئے ہیں، فلسطینیوں کے اس نسل کشی کے خونی قتل عام میں سیکڑوں فلسطینیوں کی شہادتوں کے بعد اب تک اسرائیلی فوجی حملوں میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 3473 ہوگئی ہے اور 12500 سے زائد زخمی ہوئے جبکہ 137,000 فلسطینی بے گھر ہوئے ہیں، غزہ پر فضائی حملوں کے بعد منظر عام پر آنے والی تصاویر میں بڑے پیمانے پر آگ، تباہی اور زمین پر بکھرے انسانی اعضاء اسرائیل کی درندگی اور سفاکی کی بھیانک شکل دکھاتی ہے ، اس کی فوٹیج دیکھ کر آدمی کا دل دہل جاتا ہے کہ آج کے دور جدید میں بھی جہاں انسانی حقوق کے نعرے ہر طرف گونجتے ہیں ، وہاں کسی قوم پر جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جا رہا ہو
آئیے اس شہر کی تاریخ کو پڑھتے ہیں کہ آخر تاریخ انسانی میں صدیوں سے یہ علاقہ کیوں متنازع رہا ہے
فلسطین کا شہر یروشلم دنیا کا وہ واحد شہر ہے جو یہودیوں، مسیحیوں اور مسلمانوں کے لیے یکساں مقدس اور متبرک شہر ہے، تاریخی اور مذہبی بنیادوں پر اس سرزمین کے حقیقی ورثاء فقط مسلمان ہیں، فلسطین کو ارض الانبیاء اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں مذکور 26 انبیاء میں سے بیشتر کا تعلق اسی علاقے سے رہا ہے۔
2500 قبل مسیح میں عربستان سے قبیلہ سام کی ایک شاخ جو کنعانی یا فونیقی یہاں آ کر آباد ہو گئی، 2000 ق م میں حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے۔حضرت ابراہیم نے اپنے بھتیجے جناب لوط اور اہلیہ سائرہ کو لے کر مبارک قدم اس سرزمین پر رکھے اور یہی سکونت اختیار کی۔ اور اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ کو اللّٰہ کے حکم سے مکہ میں چھوڑ دیا اور اپنے دوسرے فرزند حضرت اسحاق کو کنعان ( بیت المقدس ) میں بسایا اور ان کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام سے بنی اسرائیل کی نسل چلی۔
حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام، حضرت سلیمان، حضرت یحییٰ علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور بہت سے دیگر پیغمبر اسی سر زمین میں پیدا ہوئے یا باہر سے آ کر یہاں آباد ہوئے۔ اسی مناسبت سے یہ خطہ زمین پیغمبروں کی سرزمین کہلائی،
یہودیوں کی اس شہر یروشلم سے مناسبت یہ ہے کہ بیت المقدس میں حضرت سلیمان کا تعمیر کردہ معبد ہے جو بنی اسرائیل کے نبیوں کا قبلہ تھا اور اسی شہر سے ان کی تاریخ وابستہ ہے ۔ یہودی اس مسجدِ اقصیٰ کو ہیکل سلیمانی کی جگہ تعمیر کردہ عبادت گاہ سمجھتے ہیں اور اسے گراکر دوبارہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ کبھی بھی بذریعہ دلیل اس کو ثابت نہیں کرسکے کہ ہیکل سلیمانی یہیں تعمیر تھا ۔ اور یہ تمام تر جنگیں صرف اسی بناء پر لڑی گئی تھی
یہودیوں کے بقول 70ء کی تباہی سے ہیکل سلیمانی کی ایک دیوار کا کچھ حصہ بچا ہوا ہے جہاں دو ہزار سال سے یہودی زائرین آ کر رویا کرتے تھے اسی لیے اسے "دیوار گریہ" کہا جاتا ہے۔ اب یہودی مسجد اقصٰی کو گرا کو ہیکل تعمیر کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔
ںیت المقدس حضرت عیسٰی کی پیدائش کا مقام ہے اور یہی ان کی تبلیغ کا مرکز تھا۔ اسی نسبت سے یہ شہر عیسائی کے ہاں بھی محترم جانا جاتا ہے
فلسطین کے دارالخلافہ، بیت المقدس کے فضائل بہت زیادہ ہیں ۔اس کے بارے میں بے شمار آیات و احادیث موجود ہیں، القدس شریف ہی شریعت محمدیہ میں مسلمانوں کا قبلہ اول ہے نبی صلی اللہ نے سولہ یا سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف نمازپڑھی۔(صحیح بخاری حدیث نمبر 41 ) حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے مقام میں اسراء اور آسمانوں کے معراج کا شرف بھی اسی سرزمین کو حاصل ہوتا ہے، جہاں آپ براق کے ذریعہ تشریف لائے اور انبیاء کی امامت کی۔
بیت المقدس پہاڑیوں پر آباد ہے اور انہی میں سے ایک پہاڑی کا نام کوہ صیہون ہے جس پر مسجد اقصٰی اور قبۃ الصخرہ واقع ہیں۔ کوہ صیہون کے نام پر ہی یہودیوں کی عالمی تحریک صیہونیت قائم کی گئی ۔
17ھ یعنی 639ء میں عہد فاروقی میں عیسائیوں سے ایک معاہدے کے تحت بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ خلیفہ عبد الملک کے عہد میں یہاں مسجد اقصٰی کی تعمیر عمل میں آئی اور صخرہ معراج پر قبۃ الصخرہ بنایا گیا۔
1099ء میں پہلی صلیبی جنگ کے موقع پر یورپی صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر کے 70 ہزار مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ 1187ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو عیسائیوں کے قبضے سے چھڑایا۔
پھر پہلی جنگ عظیم دسمبر 1917ء کے دوران انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کر کے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔ یہود و نصاریٰ کی سازش کے تحت نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دھاندلی سے کام لیتے ہوئے فلسطین اور عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا اور جب 14 مئی 1948ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا تو پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ اس کے جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر قابض ہو گئے، تاہم مشرقی یروشلم (بیت المقدس) اور غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آ گئے۔ تیسری عرب اسرائیل جنگ (جون 1967ء) میں اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا ہے ۔
آئیے اب فلسطین کی موجودہ صورتحال کو سمجھتے ہیں
1947ء سے قبل مشرق وسطی میں اسرائیل نامی کوئی ریاست نہیں تھی۔ 1948ء میں اقوامِ متحدہ نے ووٹنگ کے ذریعے فلسطین اور اسرائیل کو دو الگ حصوں میں تقسیم کیا، جس کے سبب فلسطین دو حصوں میں بٹ گیا ۔ 1948ء میں اردن، مصر، شام،اور عراق نے اسرائیل پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں ساڑھے سات لاکھ فلسطینی بے گھر ہوئے ، 1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے مصر سے غزہ کی پٹی، شام سے گولان، اردن سے مشرقی یروشلم اور ویسٹ بینک، مصر سے سینائی چھین لیا۔ 1973ء میں جنگ ہوئی تو ایک اور شکست مسلمانوں کو حاصل ہوئی ۔
محل وقوع کے اعتبار سے بحر متوسط ( میڈیٹیرین سی) کے ساحل کے ساتھ لگی جس ریاست کو 1948ء تک فلسطین کہا جاتا تھا آج اسرائیل کے ناجائز قبضے کے تسلط میں ہے، فلسطین کا رقبہ حنفہ اور غزہ سمیت ۲۷ ہزار کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ براعظم ایشیاء کے مغرب میں بحر متوسط کے جنوبی کنارے پر واقع ہے، شمال میں لبنان، جنوب مغرب میں مصر اور مشرق میں شام اور اردن سے اس کی سرحدیں ملی ہوئی ہیں۔ جبکہ مغرب میں بحرمتوسط کا طویل ساحل ہے، اس علاقے کو مشرق وسطیٰ بھی کہا جاتا ہے
فلسطین دو حصوں پر مشتمل ہے مشرقی حصے کو ویسٹ بنک کہا جاتا ہے
اور مغربی حصے کو غزہ کہتے ہیں ، جس پر اسرائیلی صہیونی کئی دہائیوں سے بم باری کر رہے ہیں
اس وقت فلسطین کے مشرقی حصے ویسٹ میں فتح ( یاسر عرفات ) کے حامیان کی حکمرانی ہے جس کے موجودہ صدر محمود عباس ہیں، 1948ء کے بعد مشرقی حصے ویسٹ بنک کو فتح نے کنٹرول کیا اور اسرائیل کے ساتھ نرم تعلقات بحال کیے 1993ء میں اسرائیل کے ساتھ اوسلو معاہدہ کے نام سے ایک امن معاہدہ بھی کیا، جس کے مطابق انہوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا، اور اس پر یقین دلایا کہ فلسطین اور اسرائیل ایک ساتھ رہ سکتے ہیں اور اسی وجہ سے اسرائیلی حکومت انہیں برداشت بھی کرتی ہے
جبکہ مغربی حصے غزہ پر حماس برسر اقتدار ہے، دراصل یہ نام ’اسلامی مزاحمتی تحریک‘ کا عربی مخفف ہے۔ اس تحریک کی ابتدا سنہ 1987ء میں مغربی کنارے (ویسٹ بینک) اور غزہ کی پٹی پر اسرائیلی قبضے کے خلاف شروع ہونے والی پہلی فلسطینی مزاحمت کے آغاز کے بعد ہوئی تھی، جو کہ مزاحمتی سوچ کی حامل ہے اور اسرائیل کو بلکل تسلیم نہیں کرتی، لڑھ کر آزادی لینے پر یقین رکھتی ہے اور 1967ء کے فلسطینی نقشے کا مطالبہ کرتی ہے اسی وجہ سے اسرائیل حماس کے خلاف ہے، اس کے خاتمہ کے لیے بار بار غزہ پر حملے کرتے ہیں اور سزا کے طور پر غزہ کو ایک اوپن ائیر جیل بنایا ہوا ہے لیکن درحقیقت غزہ کی زمینی سرحدیں ، علاقائی سرحدیں اور ہوائی سرحدیں اسرائیل کنٹرول کرتی ہیں غزہ مکمل طور پر اسرائیل پر منحصر ہے پانی، بجلی، ٹیلی کمیونیکیشن، میڈیکل کیئر کے لیے اسرائیل پر منحصر ہے
آج تک اسرائیل نے غزہ پر چار بڑے حملے کیے ہیں 2008,12,14,21 اور ایک اب 2023 اکتوبر ان چار حملوں میں اسرائیل نے 50 ہزار سے زائد گھر ، 20 ہزار بلڈنگ، 25 سکول اور 19 ہسپتال اور 51 ھیلتھ سنٹرز تباہ کیے ہیں اور 40 ہزار کے قریب فلسطینی شہید کیے گئے جن میں 22 سو بچے اور دو سو سے زائد عورتیں شامل ہیں ، سکول ، مساجد، قبرستان، ھیلتھ سنٹرز اور تعلیمی ادارے اور میڈیا انسٹیٹیوٹ مین ٹارگٹس تھے
غزہ کے جنوب میں مصر، مغرب میں بحر متوسط اور باقی تمام سرحدیں اسرائیل کے ساتھ ملتی ہیں
غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی اوپن ایئر جیل (World Biggest open air prison) کہا جاتا ہے غزہ کی لمبائی 41 کلومیٹر اور چوڑائی 6 اور جنوبی حصے میں 12 کلومیٹر ہے اور کا رقبہ تقریباً 365 مربع کیلومیٹر ہے غزہ کی کل ساتھ لینڈ کراسنگ ہیں جن میں سے 5 مستقل طور پر بند رہتی ہیں اور دو کو مصر کنٹرول کرتا ہے اور یہ لینڈ کراسنگ غیر معمولی حالات میں ہی کھولے جاتے ہیں یعنی نہ کھلنے کے برابر ہے اس بندش کے سبب غزہ کے فلسطینی باہر کی دنیا سے مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں کسی ملک کے ساتھ کوئی تجارت نہیں ہوتی ، یو این کی 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق غزہ اس بندش کے سبب پانی کی قلت، بجلی کی فراہمی، تعلیم اور مفلوجی بیماریوں سے محفوظ رکھنے والی صحت کے آلات سے محروم ہیں، 65٪ لوگ بھوک اور بے روزگاری کا شکار ہیں، 2020 میں یو این کی لیونگ ٹیم نے غزہ کو unliveable place ناقابل رہائش علاقہ قرار دیا تھا کہ یہاں انسانوں کا رہنا ناممکن ہے۔
غزہ دنیا میں تیسرا سب سے زیادہ ترین گنجان آباد مقام بھی کہلاتا ہے کیونکہ اس کے صرف 365 مربع کیلومیٹر یعنی پاکستان کے شہر فیصل آباد سے بھی 147 کلومیٹر چھوٹے رقبے پر دو میلین یعنی بیس لاکھ لوگ رہتے ہیں ان میں سے 65٪ وہ لوگ ہیں جنہیں اسرائیل نے بے گھر کر دیا ہے اور سہارے کے لیے وہ غزہ میں مقیم ہیں۔
مسلسل کئی سالوں سے اسرائیلی صہیونی درندگی اور سفاکی سے فلسطین میں ناجائز قبضہ جمائے دہشت گردی کر رہا ہے اور نہتے فلسطینیوں پر بیہمانہ تشدد کر رہا ہے اور ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے لیکن آج تک اس پر اس قسم کا واویلا نہیں مچایا گیا تھا جس طرح کہ آج پوری دنیا اس میں کود پڑی ہے یہ سب اْس وقت خاموش رہے جب تاریخی طور پر اسرائیل فلسطینیوں کو چن چن کر مار رہا تھا، ان کے گھر جلائے جارہے تھے ، کیا وہ ہمیشہ اسی طرح دیکھتے رہیں گے؟ فلسطین کی تحریک حماس اور مظلوموں نے اپنی استقامت اور جذبہ حریت سے صرف خود میں نہیں بلکہ پوری امت میں نئی روح پھونک دی ہے
فلسطینی قوم کو سلام کہ اتنے مظالم سہنے کے باوجود ان کے جذبہ حریت میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں آئی
خوشی کی بات یہ ہے کہ حماس نے یہ حملہ اس وقت کیا جب رفتہ رفتہ مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم یا اس کے ساتھ امن معاہدے کر رہے ہیں۔ اب کہا جا رہا تھا کہ پانچ چھ عرب ممالک اسے تسلیم کرنے کے قریب ہیں کہ حماس نے طوفان الاقصیٰ کے ذریعے ان کے عزائم خاک میں ملا دیے مسلم ممالک ایک ایک کرکے اسرائیل کے سامنے سجدہ ریز ہو رہے ہیں اور اسرائیل کے ساتھ تجارتی ، معاشی اور سائنسی ترقی پر معاہدے کر رہے ہیں۔ 9 اور 10 ستمبر 2023ء کو انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے سنیچر کو جی 20 سربراہی اجلاس کے دوران امریکہ، سعودی عرب اور یورپی ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ دلی میں ’انڈیا-مشرق وسطی- یورپ اکنامک کوریڈور‘ کا اعلان کیا جسے انڈیا سمیت دنیا بھر کے رہنما ایک تاریخی معاہدہ قرار دیا تھا اس ایک حملے طوفان الاقصیٰ نے اس منصوبے کو چکنا چور کر دیا اور عرب اسرائیل تعلقات کو ایک دفع پھر بہت دور دھکیل دیا ہے
امریکہ نے کھل کر اسرائیل کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے جبکہ دیگر یورپین ممالک بھی اسرائیل کے حق میں کھڑے ہیں۔
ایسے میں یہ خبر بھی بہت اہم ہے کہ حماس کے بیرونِ ملک امور کے سربراہ خالد مشعل نے کہا ہے کہ ( طوفان الاقصیٰ مسجدِ اقصیٰ کے دفاع کے لیے شروع کیا گیا جہاد ہے، میں اس وقت آپ کو جہاد کے لیے متحرک ہونے کی دعوت دیتا ہوں۔ اے مسلم امہ! زندہ اور آزاد ضمیر لوگو! یہ تاریخ بن رہی ہے، لہٰذا اس کے روشن سنہرے صفحے پر خود کو قائم رکھو۔ غزہ تم سے فریاد کررہا ہے کہ اس کی امداد اور رقم سے مدد کرو۔ تم میں سے ہر ایک پیسے سے اس جنگ میں حصہ لے سکتا ہے۔ طوفان الاقصیٰ ہمارے نبیؐ کی امانت ہے، ہمارے آقا عمرؓ بن الخطاب کی امانت ہے اور صلاح الدین ایوبیؒ کی امانت ہے، جنہوں نے بیت المقدس کو صلیبیوں کے پنجے سے آزاد کرایا، ہمارا قبلہ اوّل تباہ ہو رہا ہے، فلسطینی قوم کا وجود مٹایا جارہا ہے۔ ایسے میں عالمِ اسلام کی بیداری اور مدد اب فرض ہوچکی ہے )
فلسطینی آئے روز ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہیں اور نام نہاد عالمی منصفوں کی دوغلی پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں، مگر عالمی ادارے انسانی حقوق کے نام پر اپنے مفادات کی خاطر خاموش ہیں یا مذمت کی حد تک محدود ہیں ۔ عالمی سامراج کی سرپرستی میں صیہونی فوج کی جانب سے فلسطینی عوام پر ظلم و ستم کا سلسلہ اب تک جاری ہے ، ان کی بستیوں کو مسمار کرکے کھنڈرات میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ خواتین، بچوں اور بزرگ شہریوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، یہ سب ایک پلاننگ کے تحت، ناجائز اسرائیلی ریاست کو دوام بخشنے کے ہتھکنڈے ہیں جب تک عالمی سطح پر منظم اور مضبوط موقف کے ساتھ فلسطینی ریاست کی اصل حالت میں بحالی کے لئے مضبوط پالیسی مرتب نہیں کی جاتی اس وقت تک اسرائیل فلسطینیوں پر اپنی ہی زمین تنگ کرکے ان پر مظالم کی سیاہ رات کو مزید طول دے گا اور درندگی کا مظاہرہ کرتا رہے گا
آج بیت المقدس کی بازیابی اور فلسطینی مسلمانوں کے حقوق کی بحالی کی جدوجہد کے حوالے سے ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ دنیا کے بیشتر مسلم ممالک کے حکمران آسمانی تعلیمات سے دستبرداری اور انسانی سوسائٹی پر وحی الٰہی کی حکمرانی سے انکار کے معاملہ میں یہود و نصاریٰ کے ہم خیال ہو چکے ہیں وہ عملاً انہی کے کیمپ میں شمار ہوتے ہیں، اسلامی ممالک کی تنظیم (OIC) او آئی سی بھی صرف جلسہ کرتی ہے اور مذمتی قرارداد پاس کر کے خاموش بیٹھ جاتی ہے۔ مسلم حکمرانوں کے مذمتی قراردادیں و بیانات خوش آئند ہیں لیکن عملی اقدامات کے بغیر مظلوموں کو حق ملنا ممکن نہیں، منظم و مضبوط پالیسی بنائے بغیر اسرائیل کے مظالم نہیں رُکیں گے، اسرائیل فلسطین میں ظلم کی تمام حدیں پار کرچکا ہے۔
صہیونیوں کا مقصد تمام یہودیوں کو فلسطین کی سرزمین میں آباد کر کے Greater Israel کی عظیم ریاست کے خواب کو عملی جامہ پہنا کر دنیا میں یہودی حکومت تشکیل دینا اور مسجد اقصیٰ کو مسمار کر کے ہیکلِ سلیمانی تعمیر کرنا ہے
اس نازک وقت میں صرف سید ابوالاعلی مودودی رحمہ اللّٰہ کے روحانی فرزند جماعت اسلامی ، اخوان المسلمون اور حماس جو پوری امت کا قرض ادا کررہے ہیں اور اسرائیل کے خلاف سراپا احتجاج بن کر ہر ظلم کے آگے ڈٹے ہوئے ہیں مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے عملی اقدامات کی جانب کوشاں ہیں۔ ہمارے فلسطینی بھائی دنیا بھر کے مسلمانوں کو پکار رہے ہیں، انہیں بھولا ہوا سبق یاد دلا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ ممالک جو دنیا کو پْرامن دیکھنا چاہتے ہیں امریکا اور اسرائیل کے کھیل سے باہر نکلیں اور فلسطین کا مسئلہ حل کرنے میں کردار ادا کریں، ورنہ یہ آگ ان تک بھی آج نہیں تو کل ضرور پہنچے گی۔ شرعاً بہ حیثیت مسلمان ہم اس بات کے مکلف ہیں کہ اس سلسلہ میں جو طریقہ اختیار کرنا ہمارے لیے ممکن ہو، ہم اس سے دریغ نہ کریں، یہ شرعی ذمہ داری ہے اور غیرت ایمانی کا تقاضا ہے کہ ہم فلسطین کی مظلوم عوام کی مالی امداد کریں، اسرائیلی کمپنیوں کی تجارتی اشیاء کا بائیکاٹ کریں، یہ بھی منکر پر ناراضگی کے اظہار اور ظالم سے بے تعلقی برتنے کا ایک مؤثر طریقہ ہے اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر فلسطین کے موقف کو اجاگر کریں اور ایک مؤثر آواز بن کر پوری دنیا کو یہ باور کرا سکے کہ فلسطین پر صہیونی غاصبوں کی ظالمانہ کارروائیاں انسانی حقوق کی پامالی ہے اور نہتے فلسطینیوں کی نسل کشی مسلمانوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہے