جب دینی مدارس کا نام لیا جاتا ہے اور گنبد و مینار کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو اچانک ہمارے ذہن میں ایک ایسے ماحول کا نقشہ ابھرتا ہے کہ جہاں ’’قال اللہ و قال الرسول ‘‘ سے معطر فضا ہو، لب و زبان پر قر آن و سنت کا ورد جاری وساری ہو۔ جہاں علم کی شمعیں روشن ہوں اور عمل کی قندیلیں جگمگا رہی ہوں۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ دینی مدارس و مساجد اسلام کے قلعے، نظریاتی سرحدوں کے محافظ امر بالمعروف کے لئے کوشاں اور منکر کے خلاف برسرپیکار ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں مدارس عربیہ اور ان سے وابستہ افراد دشمنان اسلام کی خون آشام نگاہوں کا ہدف اور بے لگام ارادوں کی لپیٹ میں رہے ہیں۔ ماضی کی طرح آج بھی دشمنان دین و ملت کے تیروں کا رخ مدارس عربیہ کی نیک نامی کو بدنام کرنے، ان کی خدمات کو خاک آلود کرنے اور ا ن کی قوت و طاقت کو مضمحل کرنے کے درپے ہے۔ طعن و تنقید کے منتر اور ہرزہ سرائی و الزام بازی کے نشتر مسلسل یہ راگ الاپ رہے ہیں کہ مدارس انتہا پسندی کے مراکز ہیں اور یہاں عسکری ٹریننگ دی جاتی ہے۔ علماء دین اور طالبان علوم نبوت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ دقیانوس اور دہشت گرد ہیں۔ داڑھی اور پگڑی پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔ ایسے میں ضرورت تھی کہ دینی مدارس کے طلبہ کیلئے ملک گیر نمائندہ فورم ہو جو کہ باطل کی ان میلی نگاہوں اور ناپاک جسارتوں کا منہ توڑ جواب دے سکے۔اس ضرورت کے پیش نظر10محرم الحرام1395ھ بمطابق 13 جنوری1975ء کو جمعیت طلبہ عربیہ کی بنیاد رکھی گئی۔ جس کا نصب العین قرآن و سنت کی روشنی میں اپنی اور بندگان خدا کی زندگیوں کی تعمیر کرتے ہوئے رضائے الٰہی کا حصول مقرر کیا گیا۔ جمعیت طلبہ عربیہ کا مقصد مختلف مکاتب فکر کے علماء و طلبہ کو ایک مرکز پر اکٹھا کرنا اور تفرقوں اور تعصبات سے بالاتر رہتے ہوئے نفاذ اسلام، شہادت حق اور اقامت دین کی تحریک کو مہمیز دینا ہے۔ دور جدید کے درپیش چیلنجز کو سمجھنے، عصر حاضر کے تقاضوں کو جاننے اور مسافران راہ حق کی تعلیم و تربیت، تعمیر و تذکیر، اور تزکیہ و تقویٰ کو پروان چڑھانے کیلئے جمعیت طلبہ عربیہ تعلیمی، تربیتی اور دعوتی سرگرمیوں کا انعقاد کرتی ہے۔ دینی مدارس کے طلبہ کے حقوق ہوں یا قومی و ملی معاملات، عالم اسلام پر کفر کی یلغار ہو یا مغرب زدہ لبرل و سیکولر حکمران کے تیر و ترکش جمعیت طلبہ عربیہ نے ہر دور اور ہر محاذ پر مدارس عربیہ کے طلبہ کی نمائندگی کی ہے۔